
فرمان بخاری المعروف ابا جی سرکار
بسم الله الرحمن الرحیم
ان لوگوں میں سے نہ ہو جانا جو عمل کے بغیر آخرت کی امید رکھتے ہیں۔ اپنی امیدوں کی بناء پر تو بہ کو ٹال دیتے ہیں۔ دنیا میں باتیں زاہدوں جیسی کرتے ہیں اور کام منافقوں جیسا انجام دیتے ہیں ! کچھیل جاتا ہے تو سیر نہیں ہوتے اور نہیں ملتا ہے تو قناعت نہیں کرتے۔ جول گیا اس کے شکریہ سے عاجز ہیں لیکن مستقبل میں زیادہ کے طلب گار ضرور ہیں۔ لوگوں کو منع کرتے ہیں لیکن خود نہیں رکتے ہیں۔ اور ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو خود نہیں کرتے ! نیک کردار لوگوں سے محبت کرتے ہیں لیکن ان جیسا عمل نہیں کرتے!
گنہگاروں سے بیزار رہتے ہیں لیکن خود بھی انہی میں سے ہوتے ہیں ! بیمار ہوتے ہیں تو گنہا ہوں پر نادم ہو جاتے ہیں۔ اور جب صحت مند ہوتے ہیں تو پھر وہی چکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اکڑ نے لگتے ہیں۔ اور آزمائش میں پڑھ جاتے ہیں تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ کوئی بلا نازل ہو جاتی ہے تو بزرگوں کی یاد آتی ہے اور جب سہولت و آسانی فراہم ہو جاتی ہے تو فریب خوردہ ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ انکا نفس ان کو خیالی باتوں پر آمادہ کر لیتا ہے۔ لیکن وہ یقینی باتوں میں اس پر قابو نہیں پاسکتے۔ مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور و مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔ اور غربت زدہ ہو جاتے ہیں تو مایوس اور ست ہو جاتے ہیں ! عمل میں کوتاہی کرتے ہیں اور سوال میں مبالغہ کرتے ہیں۔ کوئی مصیبت لاحق ہو جاتی ہے تو اسلامی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں۔ عبرت ناک واقعات بیاں کرتے ہیں لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے۔ قول میں ہمیشہ اونچے رہتے ہیں اور عمل میں کمزور رہتے ہیں۔ فنا ہونے والی چیزوں میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں واقعی فائدے کو نقصان سمجھتے ہیں۔ اور حقیقی نقصان کو فائدہ تصور کرتے ہیں۔ اپنی معمولی اطاعت کو بھی کثیر سمجھتے ہیں اور فضول نائٹ کلب اور دیگر لغویات کے مقامات پر سرمایہ داروں کے ساتھ ٹائم کی فکر نہیں ! کسی کو یہ شوق نہیں ہوتا کہ چند لمحہ خانہ میں بیٹھ کر فقیروں کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں مناجات کرے اور یہ احساس کرے کہ اس کی بارگاہ میں سب فقیر ہیں ۔ یہ دھن دولت عارضی ہے خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ جانا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے ور نہ افسوس کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ابا جی سرکار )